*ایک گلی تھی جب اس سے ہم نکلے*
*تحریر:ذوالفقار علی*
برولمو گاوں قدیم الایّام سے علم و فضل کا مرکز رہا ہے۔ایک زمانہ تھا کہ بہ یک وقت 120 سے زائد طلاب حلقہ درس میں موجود ہوتے تھے۔ اور نہ صرف بلتستان بلکہ کارگل لداخ سے بھی تشنہ گان ِ علوم اس چشمہ علم و دانش سےفیض یاب ہوتے تھے۔اس زمانے میں یہاں صرف ونحو،منطق،سیوطی،فقہ،علم حدیث اور علم معانی وغیرہ کی تعلیم دی جاتی تھی۔لیکن کیا کیجیے
"اس کو فلک نے لوٹ کے ویران کردیا ۔۔
1999کی کارگل وار کے بعد سے اس گاوں کی تمام تر رعنائیاں ختم ہوگئیں ۔علم و فضل کا مرکز سمجھا جانے والا یہ گاوں بے چراخ ہوکر رہ گیا۔کارگل شہر سے 06کلومیٹر کے فاصلے پر واقع یہ گاوں ضلع کھرمنگ کا آخری گاوں ہے۔اس گاوں کی شہرت کا ایک اہم اور معتبر حوالہ یہاں کے بزرگ عالم دین حضرت آیت اللہ شیخ علی (رح)ہے۔
![]() |
دنیا آپ کو اپوچو شیخ علی کے نام سے جانتی ہے۔ان کی رحلت کو 47 سال ہوگئے۔لیکن کے ان اخلاق،علمی ریاضت،قضاوت کے قصے،درس وتدریس اور کرامات کے چرچے آج بھی زبان زدِ خاص و عام ہیں۔اپوچو کا مزار اقدس مرجع ِ خلائق ہیں جہاں آج بھی بلتستان بھر سے سیکڑوں کی تعداد میں عقیدت مند نذرانہ ء عقیدت پیش کرنے کی غرض سے جاتے ہیں ۔کہا جاتا ہے کہ سرحد کے اس پار بھی اپوچو کے مداح موجود ہیں۔مسلمانوں کے علاوہ ہندو اوربدھ مت بھی اپوچو سے عقیدت رکھتے ہیں ۔بُدھسٹ انہیں "نیما علی " کے نام سے جانتے ہیں ۔
قارئین ! پاک،بھارت کے مابین مختلف ادوار میں جنگیں ہوتی رہیں۔ان جنگوں کے نتیجے میں،دونوں جانب ناقابل تلافی نقصانات ہوئے۔تاریخ میں ایک جنگ "کارگل" کے نام سے معروف ہے۔اور یہی وہ جنگ ہے،جس کے نتیجے میں،دیگر چھوٹے بڑے دیہاتوں کی طرح برولمو گاوں بھی متاثر ہوا۔اس جنگ کے نتیجے میں برولمو گاوں مکمل طور پر تباہ ہوا۔
یہ 15اگست 1996کی نصف شب کی بات ہے کہ برولمو گاوں کی فضا اچانک دھماکوں،بارود اور گولیوں کی آواز سے گونج اٹھی۔ہر طرف افراتفری پھیل گئی۔لوگ اپنی اور اپنے عزیزوں کی جانیں بچانے کی غرض سے گھروں سے نکل کے بنکر یعنی غاروں کی طرف بھاگنے لگے۔اس موقعے پر چھوٹے چھوٹے بچے ماوں سے لپٹ لپٹ کر دہائی دینے لگے۔ ہر طرف آہ وبکاء کی آوازیں بلند ہونے لگیں۔کشیدگی بڑھتی گئی اور گاوں والے غاروں میں محصور ہوکر رہ گئے۔اگلی رات مقامی آبادی کو حکم ملا کہ جان بچانے کےلیے محفوظ مقامات کی جانب نکل جائیں ۔چناں چہ راتوں رات مشکل اور دشوار گزار راستوں سے ہوتا ہواگاوں سے 02کلومیٹر دور لق و دق اور بے آب و گیاہ صحرا میں آپہنچے۔اس سفر میں عمر رسیدہ بزرگوں کا راتوں رات لڑکھڑاتے ہوئے ،اندھیری رات میں راستہ ٹٹولتے ہوئے گرتے بچتے ،جان بچانے کی کوشش میں سفر کرنا سب سے مشکل مرحلہ تھا۔اس اذیت ناک مرحلے کو محسوس کرکے آج بھی رونگٹے کھڑے ہوجاتے ہیں اور اس عالم ِ غربت میں معصوم بچوں کا بھوک اور پیاس سے نڈھال ہوکر رونا،اور ایسے میں ماوں کے پاس بچوں کو بہلانے کے لیے کچھ بھی نہ ہو،ان مناظر کا بیان آسان نہیں ہے۔
اس صحرا میں پہنچ کر لوگ عارضی طور پر خیموں میں اس امید کے ساتھ رہنے لگے کہ بہت جلد امن ہوکر برولمو واپس جائیں گے۔لیکن پورے دو سال کا عرصہ اس امید کے ساتھ گزر گیا مگر گاوں واپسی کا خواب شرمندہ تعبیر نہ ہوا۔گویا بقول جون ایلیاء
وہ جو تعمیر ہونے والی تھی۔۔
لگ گئی آگ اس عمارت میں ۔۔.
چارو ناچار اسکردو کی طرف ہجرت کرنے پر مجبور ہوئے۔اور مرحلہ وار سکردو کی جانب عازم ِ سفر ہوئے ۔جنگی کیفیت سے مجبور ہوکر مال مویشیاں نصف سے بھی کم قیمت پر فروخت کردیے۔22جون 1998 کو برولمو کا ایک باہمت فرزند ریٹائر نائک محمد ابراہیم دشمن کی فائرینگ سے شہید ہوگے۔ محمد ابراہیم کے ساتھ دو خواتین بھی شہید ہوئیں ۔اس حادثےکے بعد گاوں والوں کی بچی کھچی امید بھی مکمل ٹوٹ گئی۔محمد ابراہیم بلارگو پیو کے مقام پر عورتوں اور بچوں کو محفوظ مقامات(غار) کی طرف منتقل کرنے میں مصروف تھے ۔الغرض برولمو کا مجبور ومحکوم،لُٹا پٹا قافلہ سینوں میں ہزار ہا داستانِ رنج و الم لیے سکردو (سندوس تھنگ) پہنچ گیا۔اور یہاں بھی عارضی طور خیمہ بستیوں میں قیام پذیر ہوئے۔گویا فلک کے مارے ہوئے ہوئے ایک بار پھر گردشِ روزگار کے ہاتھوں مجبور تھے۔ مقامی لوگوں نے ان مہاجرین کے ساتھ تعاون کرکے انصارِ مدینہ کی یاد تازہ کردی۔اور مہاجرین نے بھی اپنی سادگی،ایمانداری اور خوداری کے بل بوتے پر مقامی لوگوں کے دلوں میں جگہ بنالیں ۔بعد ازاں فلاحی اداروں کے وساطت سے ان لوگوں کر سر چھپانے کے لیے چھت میسر آئیں۔
اس واقعے کو تقریباً 24سال کا عرصہ گزر گیا،مگر یہ لوگ آج بھی اپنے آبائی گاوں کو شدت سے یاد کرتے ہیں۔
ایک گلی تھی جب اس سے ہم نکلے ۔۔
ایسے نکلے کہ جیسے دم نکلے ۔۔
اب ان لوگوں کی معاشی حالت پہلے سے کافی بہتر ہے۔ مختلف شعبوں میں کام کاج کرکے گزر بسر تو کررہے ہیں تاہم حکومتی عدم توجہی کے باعث زندگی کے دوڑ میں پیچھے ہیں یہاں کے نوجوان آج بھی اعلیٰ تعلیم اور روزگار کے اچھے مواقع سے محروم ہیں۔
جنگی حالت اور گاوں کی تباہی اور حکومتی بے رخی کے باعث آج بھی ان کے زہنوں پر ناامیدی کے بادل منڈلارہے ہیں۔لیکن اپوچو اور گاوں کی محبت میں کمی نہیں آئی آج بھی سال میں ایک دفعہ اپوچو اور آباو اجداد کے لیے فاتحہ خوانی کی غرض سے گاوں کا رخ کرتے ہیں۔اور وہاں عزاداری اور جلوس کا بھی اہتمام کرتے ہیں۔عوامی حلقوں کا مطالبہ ہے کہ ان مہاجرین کو گاوں کے نقصانات کے عوض معاوضے جلد اداکیے جائیں نیز وفاقی حکومت برولمو کی آباد کاری کے لیے اقدامات کریں۔ایک عرصے سے یہ مطالبہ بھی زور پکر رہاہے کہ کرتالپور راہداری کی طرح سکردو
کارگل روڈ کو بھی زائرین اور75 سالوں بچھڑے ہوئے منقسم بلتی،پُرکی و دیگر خاندانوں کے لیے کھولا جائے ۔بتایا جاتا ہے کہ اس سڑک کے کھلنے سے دونوں جانب معاشی خوشحالی آئے گی اور امن امان کی فضا بہتر ہوگی۔
![]() |
FB Account |
0 Comments